شکوہ کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نوا ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں جرات آموز مري تاب سخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے تھي تو موجود ازل سے ہي تري ذات قديم پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھي شميم شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم ہم کو جمعيت خاطر يہ پريشاني تھي ورنہ امت ترے محبوب کي ديواني تھي؟ ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر خوگر پيکر محسوس تھي انساں کي نظر مانتا پھر کوئي ان ديکھے خدا کو کيونکر تجھ کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئي نام ترا؟ قوت بازوئے مسلم نے کيا کام ترا بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي اہل چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہاں داروں کي کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي ہم جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟ قوم اپني جو زر و مال جہاں پر مرتي بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے تجھ سے سرکش ہوا کوئي تو بگڑ جاتے تھے تيغ کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے زير خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے شہر قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے کاٹ کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟ کس نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟ کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي اور تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئي کس کي شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئي کس کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قوم حجاز ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے محفل کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے مے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھي ناکام پھرے دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے ديے گھوڑے ہم نےبحر ظلمات ميں دوڑا صفحہ دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے پھر بھي ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہ گار بھي ہيں عجز والے بھي ہيں ، مست مےء پندار بھي ہيں ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے منزل دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور اور بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں کيوں مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب تيري قدرت تو ہے وہ جس کي نہ حد ہے نہ حساب تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب رہرو دشت ہو سيلي زدہء موج سراب طعن اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟ بني اغيار کي اب چاہنے والي دنيا رہ گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالي دنيا پھر نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے شب کے آہيں بھي گئيں ، صبح کے نالے بھي گئے دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلا لے بھي گئے آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر درد ليلي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي نجد کے دشت و جبل ميں رم آہو بھي وہي عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي امت احمد مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي پھر يہ آزردگي غير سبب کيا معني اپنے شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معني تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربي کو چھوڑا؟ بت گري پيشہ کيا ، بت شکني کو چھوڑا؟ عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟ رسم سلمان و اويس قرني کو چھوڑا؟ آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں زندگي مثل بلال حبشي رکھتے ہيں عشق کي خير وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي مضطرب دل صفت قبلہ نما بھي نہ سہي اور پابندي آئين وفا بھي نہ سہي کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے بات کہنے کي نہيں ، تو بھي تو ہرجائي ہے سر فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے پھونک دي گرمي رخسار سے محفل تو نے آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں ہم وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟ وادي نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا اے خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئي بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے سنتے ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے دور ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے تيرے ديوانے بھي ہيں منتظر 'ھو' بيٹھے اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزي دے برق ديرينہ کو فرمان جگر سوزي دے قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز نغمے بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے مشکليں امت مرحوم کي آساں کر دے مور بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے جنس ناياب محبت کو پھر ارزاں کر دے ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے جوئے خوں مي چکد از حسرت ديرينہء ما مي تپد نالہ بہ نشتر کدہ سينہ ما بوئے گل لے گئي بيرون چمن راز چمن کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن ايک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک قمرياں شاخ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں پےتاں پھول کي جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں وہ پراني روشيں باغ کي ويراں بھي ہوئيں ڈالياں پيرہن برگ سے عرياں بھي ہوئيں قيد موسم سے طبيعت رہي آزاد اس کي کاش گلشن ميں سمجھتا کوئي فرياد اس کي لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں کچھ مزا ہے تو يہي خون جگر پينے ميں کتنے بے تاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہي نہيں چاک اس بلبل تنہا کي نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسي بانگ درا سے دل ہوں يعني پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں عجمي خم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مري | جواب شکوہ دل سے جو بات نکلتي ہے اثر رکھتي ہے پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتي ہے قدسي الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتي ہے خاک سے اٹھتي ہے ، گردوں پہ گزر رکھتي ہے عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئي بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئي چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئي کہکشاں کہتي تھي' پوشيدہ يہيں ہے کوئي کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا تھي فرشتوں کو بھي حيرت کہ يہ آواز ہے کيا عرش والوں پہ بھي کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا تا سر عرش بھي انساں کي تگ و تاز ہے کيا آگئي خاک کي چٹکي کو بھي پرواز ہے کيا غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں شوخ و گستاخ يہ پستي کے مکيں کيسے ہيں اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھي برہم ہے تھا جو مسجود ملائک' يہ وہي آدم ہے عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو آئي آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا کس قدر شوخ زباں ہے دل ديوانہ ترا شکر شکوے کو کيا حسن ادا سے تو نے ہم سخن کر ديا نبدوں کو خدا سے تو نے ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئي سائل ہي نہيں راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہي نہيں تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہي نہيں جس سے تعمير ہو آدم کي' يہ وہ گل ہي نہيں کوئي قابل ہو تو ہم شان کئي ديتے ہيں ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھي نئي ديتے ہيں ہاتھ بے زور ہيں' الحاد سے دل خوگر ہيں امتي باعث رسوائي پيغمبر ہيں بت شکن اٹھ گئے' باقي جو رہے بت گر ہيں تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں بادہ آشام نئے ، بادہ نيا' خم بھي نئے حرم کعبہ نيا' بت بھي نئے' تم بھي نئے وہ بھي دن تھے کہ يہي مايہ رعنائي تھا نازش موسم گل لالہ صحرائي تھا جو مسلمان تھا' اللہ کا سودائي تھا کبھي محبوب تمھارا يہي ہرجائي تھا کسي يکجائي سے اب عہد غلامي کر لو ملت احمد مرسل کو مقامي کو لو کس قدر تم پہ گراں صبح کي بيداري ہے ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياري ہے طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاري ہے تمھي کہہ دو يہي آئين و فاداري ہے؟ قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھي نہيں جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھي نہيں جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئي فن' تم ہو نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو ہو نکو نام جو قبروں کي تجارت کرکے کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟ نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا کس نے؟ ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟ ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟ تھے تو آبا وہ تھارے ہي' مگر تم کيا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور شکوہ بے جا بھي کرے کوئي تو لازم ہے شعور عدل ہے فاطر ہستي کا ازل سے دستور مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور تم ميں حوروں کا کوئي چاہنے والا ہي نہيں جلوئہ طور تو موجود ہے' موسي ہي نہيں منفعت ايک ہے اس قوم کي' نقصان بھي ايک ايک ہي سب کا نبي' دين بھي' ايمان بھي ايک حرم پاک بھي' اللہ بھي' قرآن بھي ايک کچھ بڑي بات تھي ہوتے جو مسلمان بھي ايک فرقہ بندي ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں کيا زمانے ميں پنپنے کي يہي باتيں ہيں کون ہے تارک آئين رسول مختار؟ مصلحت وقت کي ہے کس کے عمل کا معيار؟ کس کي آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟ ہوگئي کس کي نگہ طرز سلف سے بيزار؟ قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں کچھ بھي پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں جاکے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا' تو غريب زحمت روزہ جو کرتے ہيں گوارا ، تو غريب نام ليتا ہے اگر کوئي ہمارا' تو غريب پردہ رکھتا ہے اگر کوئي تمھارا' تو غريب امرا نشہ دولت ميں ہيں غافل ہم سے زندہ ہے ملت بيضا غربا کے دم سے واعظ قوم کي وہ پختہ خيالي نہ رہي برق طبعي نہ رہي، شعلہ مقالي نہ رہي رہ گئي رسم اذاں روح بلالي نہ رہي فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالي نہ رہي مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازي نہ رہے يعني وہ صاحب اوصاف حجازي نہ رہے شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھي کہيں مسلم موجود وضع ميں تم ہو نصاري تو تمدن ميں ہنود يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود يوں تو سيد بھي ہو، مرزا بھي ہو، افغان بھي ہو تم سبھي کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھي ہو دم تقرير تھي مسلم کي صداقت بے باک عدل اس کا تھا قوي، لوث مراعات سے پاک شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک تھا شجاعت ميں وہ اک ہستي فوق الادراک خود گدازي نم کيفيت صہبايش بود خالي از خويش شدن صورت مينايش بود ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا اس کے آئينہء ہستي ميں عمل جوہر تھا جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو ہر کوئي مست مے ذوق تن آساني ہے تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلماني ہے حيدري فقر ہے نے دولت عثماني ہے تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحاني ہے؟ وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم پہلے ويسا کوئي پيدا تو کرے قلب سليم تخت فغفور بھي ان کا تھا، سرير کے بھي يونہي باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھي؟ خودکشي شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار تم ترستے ہو کلي کو، وہ گلستاں بہ کنار اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کي نقش ہے صفحہ ہستي پہ صداقت ان کي مثل انجم افق قوم پہ روشن بھي ہوئے بت ہندي کي محبت ميں برہمن بھي ہوئے شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھي ہوئے بے عمل تھے ہي جواں ، دين سے بدظن بھي ہوئے ان کو تہذيب نے ہر بند سے آزاد کيا لا کے کعبے سے صنم خانے ميں آباد کيا قيس زحمت کش تنہائي صحرا نہ رہے شہر کي کھائے ہوا ، باديہ پيما نہ رہے وہ تو ديوانہ ہے، بستي ميں رہے يا نہ رہے يہ ضروري ہے حجاب رخ ليلا نہ رہے گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بيداد نہ ہو عشق آزاد ہے ، کيوں حسن بھي آزاد نہ ہو عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے ايمن اس سے کوئي صحرا نہ کوئي گلشن ہے اس نئي آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے آج بھي ہو جو براہيم کا ايماں پيدا آگ کر سکتي ہے انداز گلستاں پيدا ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالي کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والي خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالي گل بر انداز ہے خون شہدا کي لالي رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابي ہے يہ نکلتے ہوئے سورج کي افق تابي ہے امتيں گلشن ہستي ميں ثمر چيدہ بھي ہيں اور محروم ثمر بھي ہيں، خزاں ديدہ بھي ہيں سينکڑوں نخل ہيں، کاہيدہ بھي، باليدہ بھي ہيں سينکڑوں بطن چمن ميں ابھي پوشيدہ بھي ہيں نخل اسلام نمونہ ہے برومندي کا پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کي چمن بندي کا پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تيرا تو وہ يوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تيرا قافلہ ہو نہ سکے گا کبھي ويراں تيرا غير يک بانگ درا کچھ نہيں ساماں تيرا نخل شمع استي و درشعلہ دود ريشہ تو عاقبت سوز بود سايہ انديشہ تو تو نہ مٹ جائے گا ايران کے مٹ جانے سے نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے کشتي حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاري کا غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداري کا تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاري کا امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داري کا کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے چشم اقوام سے مخفي ہے حقيقت تيري ہے ابھي محفل ہستي کو ضرورت تيري زندہ رکھتي ہے زمانے کو حرارت تيري کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تيري وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھي باقي ہے نور توحيد کا اتمام ابھي باقي ہے مثل بو قيد ہے غنچے ميں، پريشاں ہوجا رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا ہے تنک مايہ تو ذرے سے بياباں ہوجا نغمہ موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دےہو نہ يہ پھول تو بلبل کا ترنم بھي نہ ہو چمن دہر ميں کليوں کا تبسم بھي نہ ہو يہ نہ ساقي ہو تو پھرمے بھي نہ ہو، خم بھي نہ ہو بزم توحيد بھي دنيا ميں نہ ہو، تم بھي نہ ہو خيمہ افلاک کا استادہ اسي نام سے ہے نبض ہستي تپش آمادہ اسي نام سے ہے دشت ميں، دامن کہسار ميں، ميدان ميں ہے بحر ميں، موج کي آغوش ميں، طوفان ميں ہے چين کے شہر، مراقش کے بيابان ميں ہے اور پوشيدہ مسلمان کے ايمان ميں ہے چشم اقوام يہ نظارہ ابد تک ديکھے رفعت شان 'رفعنالک ذکرک' ديکھے مردم چشم زميں يعني وہ کالي دنيا وہ تمھارے شہدا پالنے والي دنيا گرمي مہر کي پروردہ ہلالي دنيا عشق والے جسے کہتے ہيں بلالي دنيا تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کي طرح غوطہ زن نور ميں ہے آنکھ کے تارے کي طرح عقل ہے تيري سپر، عشق ہے شمشير تري مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تري ماسوي اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تري تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تري کي محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں |
Free Web Counter
Web Tracking